تفسیر قرآن کا معیار

12
1 م ک ی ل ع لام س ا ن را ق ر سی ف ت لہ ی س م: ہا% ک ت ی ع و % ناس% س ح اور ق % ی ق ی د فا% ھ ک تا% ھ س تا% ے س ک ے ن و" % ہ م" ہ لہ ا ی% س م ہ ی ں میB ابB % اس ب ں۔ ہ ن "ے کہ ہ ا % رب ک ت ی ا ف ک ے ئ ل ے ک ت ی دا" ود ہ خ اب دB د بY یB ج م ران ق کہ ے ن راB % ب و% ک ران % ق ی" ہ ے% سلام%% س ل ا %% ئ اوا ں۔Y ہ ے ن اB %% ے ج ن اd % ب اب %% ربg ظ نے%% س ت" ہB ن ت ی دا" % ر ہ% گ ا ران % ق ی ن% ع ت ہ ی ن% ھ ک ی ر ن% ع م ر دو% کr ف ہ اور ی "ے۔ ہ ا % ی گ ھاB ج م% س ی ف ا% ک ت ی دا" % ہ ہ ی ف ےکا ئ ل ے کB ت ل مط لا" ہd ن ی" ہ دا % دہ ج % ی| ئ ما ن ی ئو% ک کہ ت ی دا" ے ہ ن راB ب ں ہ نوری ر ض "ے کہ ہ ا ب ے ا ئ م ہ سا ی ی ار % ی ئ ےB نے% س دہ % ی| ئ ما ن ی" ہٰ ل اd ب و ا ن ے ن اB % ا ج % ی ل ر گ اB ت ل مط ہ رے ۔ ی ک ر سی ف ت ی ک اس ے۔ گ ں ی ر ک ور" ہg ظ ت ی اB ی ح اور ت ح اB ی م ے س ت" ہB ن رd ب سB ح ں۔Y ہ ہ ر ر ک ر" ہ اg ظ

description

ایک خط جس میں تفسیر قرآن کا درست معیار معلوم کرنے کی ابتدائی بحث ہے۔

Transcript of تفسیر قرآن کا معیار

Page 1: تفسیر قرآن کا معیار

1

﷽اسلام علیکم

آ�ن :مسئلہ تفسیر قر

یہ مسئلہ اہم ہونے کے ساتھ ساتھ کافی دقی��ق اور حس��اس ن��وعیت ک��ا ہے کہ ق��ران مجی��د ب��ذات

خود ہدایت کے لئے کفایت کرتا ہے کہ نہیں۔ اس باب میں بہت سے نظریات پائے جاتے ہیں۔ اوائ��ل

اسلام سے ہی قران کو برائے ہدایت کافی سمجھا گی�ا ہے۔ اور یہ فک�ر دو مع�نی رکھ�تی ہے یع�نی ق�ران

اگر ہدایت کے لئےکافی ہے

آات��اہے کہ ض��روری نہیں ب��رائے ہ��دایت کہ ک��وئی نمائن��دہ خ��دا ہی اس کی تفس��یرپہلا مطلب یہ س��امنے

للہی نمائندہ سے بے نیازی ظ�اہر ک�ر رہے ہیں۔ جس پ�ر بہت س�ے آاپ ا کرے ۔ یہ مطلب اگر لیا جائےتو

مباحث اور خبائث ظہور کریں گے۔

آان کےدوسر� مطلب یہ ہے کہ الہی نمائندہ کی تفسیرو تاوی��ل کی اہمیت اپ��نی جگہ ہے مگ��ر یہ کہ ق��ر

ظواہر سے کسی حد تک ہدایت حاصل کی جا سکتی ہے۔

یہ دوسرا مطلب ق�درے معق�ول معل�وم ہوت�ا ہے مگ�ر یہ وض�احت طلب ض��رور ہے۔ کی�ونکہ ہم�ارے س�امنے

بہت سے دلائل ایسے بھی ہیں جن کا بحر کیف انکار کرنا ممکن نہیں۔

آXاپ نے اختیار کیا ہے تو سوال پیدا ہو گا کہ قران کے ظواہر سے مراد کیا ہے؟ اگر دوسرا مطلب

آای��ات ایس��ی ہیں ج��و اپ��نے ظ��واہر س��ے مطلب دے یعنی یہ کیسے تہہ کیا جائےگا کہ قران کی کونس��ی

رہی ہیں۔ اور کونسی نہیں دے رہی جن کے ل�ئے اللہ کے مق��رر نمائن��دہ س�ے ہی پوچھ��ا ج��ائے گ��ا؟ اس

Page 2: تفسیر قرآن کا معیار

2

آایات کو ایک مطلب کو اختیار کرنے کے لئے ایک ایسا اصول بیان کرنا ہوگا جس سے ہم دو قسم کی

دوسرے سے مم�یز ک�ر س�کیں۔ کی�وں کہ ہم ج�انتے ہیں کہ ق�ران کے ظ�واہر س�ے مطلب لی�نے کی بنی�اد

لوگوں کا اپنا اپنا فہم ہو سکتا ہے۔ یعنی میں ایک کم عق�ل اور جاہ�ل انس��ان ہ�وں پس م��یرے ل�ئے ای�ک

بات نہایت ہی مشکل المعانی ہے جبکہ وہی بات ای�ک فلس��فہ منط��ق م�اہر کے ل�ئے نہ��ایت س�ادہ

آای��ات محکم نہیں ج��و کس��ی بہت ب��ڑے ع��الم کے ل��ئے محکم ہ��وں۔ ہے۔ ی��ا م��یرے ل��ئے ق��ران کی وہ

آایت محکم کیوں کہ عقلیں مختلف ہیں فہم بھی جدا جدا۔ تو ایسی صورت میں ک��وئی بھی ق��ران کی

آاتا ہے۔ اور کوئی بھی متشابہ بذات خود نہیں رہے گی۔ تو یہ تمیز اختیار کرنا نہ ممکن نظر

آان یعنی آایات کے ظ��واہر س��ے مطلب لی��ا ج��ا6666بصورت دیگر یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگرتمام قر

سکتا ہےتو پھر کیا مطلب لینے کی کوئی حد متعین کی گئی ہے کہ کس حد تک معنی لینا ٹھی��ک ہ�و

آاپ ک�و الہی نمائن��دہ س�ے تاوی��ل پوچھن��ا ہ�و گی۔ اس مطلب ک�و آاگے ج�اتے ہ�وئے گا اور کس حد سے

آان کے مع��املے میں گم��راہی س��ے اختیار کرنے کے لئے بھی ایک ایسا اصول بیان کرن��ا ہوگ��اجو تفس��یر ق��ر

آایات کی مث��ال بھی بی��ان ک��ر بچا سکے اور لوگوں کے اپنے اپنے فہم پر بات موقوف نا رہے۔ ہم دو چار

کے یہ واضح نہیں کر پاتے کے اس کا مطلب جو لیا گیا ہے اس سے زیادہ نہیں لیا جا سکتا کی��وں کہ

�ور پھریہ معاملہ بھی فہم کا ہے۔ جس کا جتنا فہم زیادہ ہو گ��ا وہ اس س��ے زی��ادہ مطلب لے لے گ��ا۔ ۔ جب یہ معی���ار طے نہیںکیا پیمانہ ہوگا کہ کس نے کونسا مطلب غلط لیا �ور کونسا درست لیا

آان سے از خود حاصل کردہ کوئی ای��ک بھی عقی��دہ ن��ا ت��و غل��ط ق��رار پ��ائے گ��ا اور ن��ا ہی ہو سکتا تو پھرقر

درست قرار پائے گا۔

آایات ظاہر میں آان کی آاپ کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ قر کچھ مزید واضح کر دوں۔ ممکن ہے کہ

آاپ کہہ سکتے ہیں بھی بہت ہی صاف صاف حلال و حرام سے مطلع کر رہی ہیں۔ مثال کہ طور پر

Page 3: تفسیر قرآن کا معیار

3

آان پڑھ کر ہم یہ نہیں جان سکتے کہ شراب پینا حرام ہے کیا نہیں جانا ج��ا س��کتا کہ جھ��وٹ کہ "کیا قر

آان ہمیں زنا سے منع کرتا ہے کیا اسی طرح ، توحی��د ک��ا بولنا گناہ ہے کیا ہم نہیں سمجھ سکتے کہ قر

حکم، عدل کا حکم، رسالت و نبوت و کتاب پرایمان کا حکم ،محبت بھائی چارے کا حکم، نیکی

آان میں بہت کا حکم، نماز پڑھنے کا حکم روزہ رکھنے کا حکم حج کا حکم یہ سارے کے سارے ق��ر

آان میں ایس���ے آان کھ���ولے اور وہ دیکھ س���کتا ہے کہ ق���ر آادمی بھی ق���ر ہی واض���ح موج���ود ہیں ای��ک ع���ام

سینکڑوں ہزاروں احکامات موجود ہیں"۔

آاپ کے ذماغ میں ہے تو میں سمجھتا ہ��وں کہ میں اپن��ا موق��ف ابھی ت��ک پہنچ��ا اگر مندرجہ بالا سوال

آاس�انی ک��وئی بھی حکم آان س��ے ب آاپ ق��ر نہیں پایا اسلئے نہایت سادگی سے میں پھر واض��ح ک��ر دوں کہ

آان کے متکلم آاپ نے لیے ہیں قر لے سکتے ہیں مگر یہ بات ہر گز ہرگز تہہ نہیں کر سکتے کہ جو معنی

آایت"اق��ام الص��لوۃ" س��ے م��راد اگ��ر لے رہیں ہیں کہ نم��از ق��ائم آاپ ای��ک کی مراد بھی وہ ہی ہے۔ یعنی

آادمی نہ��ایت چلاکی س��ے یہ لے لے گ��ا کہ یہ��اں آایت س��ےمراد ای��ک کرو ت��و ٹھی��ک اس��ی لمحے اس��ی

آان س��ے بھی دلائ��ل لا ک��ر دے دے گ��ا۔ کی��وں کہ وہ الصلوۃ سے مراد درود و سلام ہے۔ اور اس پ��ر ق��ر

آاپ کے پاس آازاد ہے ۔ تب آاپ کی طرح کہ ج��وکیا معی''ار ہ''و گ''ا بھی معنی لینے کے معاملے میں

آاپ لے رہے ہیں وہ درست ہیں یا وہ دوسرا شخص جو معنی لے رہا ہے وہ مراد اللہ کی نہیں؟ معنی

آان میں چونکہ اکثر م�ردوں ک��و مخ�اطب کی��ا گی��ا ہے اس اگر عورتیں میں سے کوئی اٹھ کر کہے کہ قر

لئے ان احکام کا تعلق بھی مردوں سے ہے مومنات کا کوئی لینا دینا نہیں۔

آایت لے کر کوئی یہ کہے کہ یہ حکم صرف موم��نین ک��و نہیں بلکہ تم��ام لوگ��وں ک��و دی��ا اگر حج کی

گیا ہے لہذا بلا تفریق مذہب ملت سب لوگ حج کے لئے جا سکتے ہیں۔

Page 4: تفسیر قرآن کا معیار

4

آایت ایسی نہ رہی جس سے کوئی بھی انسان اپن��ا مطل��وبہ مطلب نک��ال س��کتا ہے غرض کوئی ایک بھی

اور یہ سب جب تک لوگوں کہ ذاتی فہم یا نیت پر منحص��ر رہے گ�ا تب ت�ک ک�وئی ای�ک بھی یہ نہیں

آان کے متکلم کی مراد کیا ہے۔ جان سکتا کہ قر

آاپ اپ��نے حاص��ل ک��ردہ مطلب اورتاوی��ل و تفس��یر کےل��ئے اا ایسی ص��ورت میں چ��اہیں ی��ا نہ چ��اہیں، مجب��ور

حدیث کی طرف رخ کریں گے اور وہاں ہی س�ے س�ند لائی ج��ائے گی کہ در اص��ل اللہ کی م��راد کس

آایت سے کیا ہے۔

آان میرے پاس ایک سادہ سی ایک اور دلیل ہے یہ ذرا مختلف نکتہ نظر ہو گ��ا ی��وں بھی دیکھے کہ ق��ر

لی ہے کہ اس کی مث��ل کلام لا ک��ر آان ک��ا دع��و آان کی محتاج ہے ۔ قر کی صداقت از خود وارث قر

آاپ اس سے کیسے نمٹیں گے۔ آ�ن کادیکھاؤ ۔ اب اگر کوئی کلام مثل کے طور پر پیش کرے تو قری/ بہت ہی محکم معلوم ہوتا ہے آایت کے ظاہر سے ہی سمجھا ج��ا س��کتا ہےدعو لی کو ۔ اور اس دعو

مگر مندرجہ ذیل نمونہ ہی لے لیجیے جو بہت جامع بھی ہے ، ہمہ جہت بھی اور اپنی ذات پ��ر دلی��ل

آان کے ظ��واہر س��ے بھی مع��نی آاپ کومعل��وم ہ��و ج��ائے گ��ا کہ ہم ق��ر آاتے ہیں بھی۔ اس نمونے کے سامنے

لی بھی ث��ابت نہیں ہ��و پ��ائے گ��ا اگ��ر ص��رف آان کی اپنی صداقت کا دع��و لی کے قر نہیں لے سکتے حت

عقل بشر پر ہی اکتفاء کیا جائے۔

آایات سے پہلے اعوذ باللہ تلاوت کر لیں۔ مندرجہ ذیل شیطانی

( 1 �بتد�ء ہے غور فکر سے کہ جس میں شرفاء کی فلاح ہے )

( 2"اور کچھ دشوار نہیں تمھارے کلام کی مثل لانا ۔)

(آایات کو جھٹلانے کی دلیل لاؤ۔ (3تو اے گروہ جن و انس تم ملکرہماری

Page 5: تفسیر قرآن کا معیار

5

( اا کفر کرنے لگو۔ (4تم ہر گز ایسا نا کر سکو گے مگر یہ کہ صریح

(5ہم تمھارےدلوں سے بھی خوب واقف ہیں۔)

(6پس تم جو دلیل لاؤ گےاسے ہم تم پر ہی پلٹا دیں گے۔)

( 7اور اس طرح حق خود پر دلالت کرتا ہے۔)

(8تو تم سچ تسلیم کرنے میں تاخیر نا کرو۔)

(9ورنہ تم نے خود کو ہلاکت میں ڈالا)

(10پھر تم اپنے نفس کو ہی ملامت کرو گے)

)امید ہے کہ یہ نہیں کہا جائے گا کہ بالا کلام عربی میں نہیں ہے تو مثل نہیں قرار پائے گا۔ کیونکہ

آایات آان کی آایات پیش کی جاسکتی ہیں جو فصیح بلیغ عربی میں موجود ہیں اور وہ قر ایسی ہزاروں

نہیں ہیں۔ مزید یہ کہ کلام خدا کی شرط کبھی بھی عربی زبان قرار نہیں دی جا سکتی۔ مذکورہ

بالاکلام فقط مثال کے طور پر تھا اور اشارہ کرنا مقصود تھا(

آان آان سے بطور ثبوت لائی جا سکتی ہیں۔ جس میں قر آایات قر محولا بالہ کے علاوہ بھی ایسی کئی

کا اسلوب سادہ ترین ہونے کا باوجود نہایت دقیق ہے۔ فرقہ باطنیہ اسماعیلہ میں ایک تصور ہے کہ

مومنہ عورتیں بھی در اصل مرد ہوتی ہیں میں نہیں جانتا کہ ایسی عجیب بات کی دلیل وہ کیا رکھتے

لی کئی مقامات پر ثابت ہو جاتا ہے۔ مثال کے آان کی ظاہری صورت میں ان کے دعو ہیں۔ مگر قر

طور پر

مومن وھو انثی او ذکر من الصالحات من یعمل ومن

)مرد( ہو۔ مومن�ور جو کوئی عمل صالح کرے خو�ہ مرد ہو یا عورت بلا شبہ وہ

Page 6: تفسیر قرآن کا معیار

6

یہاں اسلوب تو یہ ہونا چاہیے کہ مومن یا بالترتیب مومنہ ہے۔ مگر مذکر کا صیغہ دونوں کے لئے

استعمال ہوا۔

آان میں مومنات کا صیغہ اختصاص کے ساتھ عورت کے لئے استعمال ہوا ہے۔ جبکہ قر

آایت نمبر آان میں سورہ اسراء کی کو دیکھیں۔19قر

آ�خرت کا �ر�دہ کیا �ور �س کے حصول کے لئے مقدور بھر کوشش کی �و رجس کسی نے پس وہ مومن )مرد( ہے۔

آان کے ظواہر میں ہی یہ بات سمجھی جا سکتی ہے کہ خدا نے کوشش اب کوئی یہ کہے کہ قر

کرنے والے ہر ایک مرد اور عورت کو مذکر کے صیغہ کے ساتھ مومن کہا ہے مومنہ کا اضافہ نہیں

کیا۔

آان کا اسلوب بیان یہاں بھی دیکھیں۔ جبکہ قر

بعض۔۔۔۔۔ اولیاء بعضھم المومنات و والمومنون

آاپس میں ایک دوسرے کے مددگار ہے۔ مومنات اور مومنین اور سب

یہاں اللہ نے دونوں کو الگ الگ جنس کے ساتھ ذکر کیا ہے۔

آان نے چور کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا ہے تو اس ظاہر سے کیا معنی لیا جاسکتا ہے بس اسی طرح قر

اتنا کہ چوری قابل سرزنش ہے ۔۔بس ۔ اس کے بعد تفسیر اور تاویل کی کوئی گنجائش نہیں رہتی ۔

آاپ کوئی بھی فقہ کے مس��ئلہ ح��ل نہیں ک��ر س��کتے کی��وں آایت سے از خود آان کی کسی بھی غرض قر

آان قائم کردہ اصول کو ب��دل دیت��ا ہے۔ کہیں پ��ر الن��اس س��ے م��راد ص��رف م��ومن و ک��افر دون��وں کہ خود قر

Page 7: تفسیر قرآن کا معیار

7

ہوتے ہیں۔ کبھی الناس سے مراد صرف مومن ہوتے ہیں اور کبھی الناس سے مراد ائمہ ھ��دی علیہ الس��لام

بھی ہوتے ہیں۔ اور یہ اللہ کی حکمت اور عدل پ��ر مش��تمل ہوت��ا ہے۔ اور اللہ کی حکمت کس جگہ

پر کیا ہے اس حقیقت کو کوئی نہیں جان سکتا س��وائے اس کے کہ جن ک��و اس نے اپن��ا امین بنای��ا

آان کے مزاج کا تہہ نہیں کر سکتے تو آاپ بغیر سند کے کوئی بھی اصول جب قر پھر تفس''یرہے۔ اور کجا تاویل کجا۔

آان بس اتنی سی ہدایت بذات خود کر سکتا ہے کہ آاخری عقیدہ یہ ہی کہ قر وہمیرا اس معاملے میں آان نے�پنےو�رث کے علاوہ جس کسی کے پاس بھی ہوتا ہے گونگا ہو جاتا ہے۔ اور یہ قر

آان قبلہ نما کی حد بذات خود ہدایت کی کہ اسے کسی اور کے پاس لے جاؤ جہاں یہ بولنے لگے۔ قر

تک بذات خودھدایت کرتا ہے اور بس۔

آاپ کے جواب کا منتظر رہوں گا۔ جو بات ان چند صفات میں میں نے میں اپنی اصلاح کے لئے

کہی ممکن ہے وہ غلط بھی ہوں۔ یا ان میں سے کچھ غلط ہو کچھ درست۔ میں نشاندہی کرنے پر

ضرور ان باتوں کو واپس لے لوں گا۔

شکریہ۔

والسلام